TYPES OF CRIMES IN LAW

Image
There are following types of crimes in law 1.  Theft something is stolen is called theft. 2.   Robbery taking something by force.  3.   Burglary breaking  into somebody's house. 4.   Shoplifting stealing merchandise. 5.   Smuggling taking goods illegally from country to country.  6    Murder/homicide  taking someone's life through violence.  7    speeding driving too fast.  8    Assessination killing someone  for hire  or fanaticism.  9.   Torture treating someone cruelly  and  unfairly.  10.  Trafficking trading in goods often illegally in case of drugs. 11.   Vandalism damaging public property.  12.    Rape someone  to have sexual relation by force.
*سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ *

*💥Eimaan Reminders💥*

*📗 اہم فوجی مراکز کی طرف اسلامی لشکر کی سبقت*

قریش مکہ بڑے سرو سامان سے نکلے تھے- ایک ہزار کی فوج تھی- ایک سو سواروں کا رسالہ تھا- سب روسائے قریش شریک تھے- ابو لہب مجبوری سے نہ آسکا تھا , اس لئے اپنی طرف سے قائم مقام بھیج دیا تھا- رسد کا یہ انتظام تھا کہ امرائے قریش باری باری ہر روز دس اونٹ ذبح کرتے اور لوگوں کو کھلاتے تھے-

قریش کو بدر کے قریب پہنچ کر جب معلوم ہوا کہ ابو سفیان کا قافلہ خطرہ کی زد سے نکل گیا ہے تو قبیلہ زہرہ اور عدی کے لوگ واپس چلے گئے- باقی فوج آگے بڑھی اور مناسب موقعوں پر قبضہ کرلیا- برخلاف اس کے مسلمانوں کی طرف چشمہ یا کنواں تک نہ تھا- تائید ایزدی سے اسی رات بارش ہوئی جو مشرکین پر موسلا دھار برسی اور ان کی پیش قدمی میں رکاوٹ بن گئی لیکن مسلمانوں پر پھوار بن کر برسی اور زمین کو ہموار کر دیا- اس کی وجہ سے ریت میں سختی آگئی اور قدم ٹکنے کے لائق ہوگئے- قیام خوشگوار ہو گیا اور دل مضبوط ہوگئے- جا بجا پانی کو روک کر چھوٹے چھوٹے حوض بنائے گئے کہ غسل اور وضو کے کام آئیں-

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے لشکر کو حرکت دی تاکہ مشرکین سے پہلے بدر کے چشمے پر پہنچ جائیں اور اس پر مشرکین کو مُسلط نہ ہونے دیں- چنانچہ عشاء کے وقت آپ نے بدر کے قریب ترین چشمے پر نزول فرمایا- اس موقعے پر حضرت حباب بن منذر رضی اللہ عنہ نے ایک ماہر فوجی کی حیثیت سے دریافت کیا، "یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا اس مقام پر آپ اللہ کے حکم سے نازل ہوئے ہیں کہ ہمارے لیے اس سے آگے پیچھے ہٹنے کی گنجائش نہیں یا آپ نے اسے محض ایک جنگی حکمتِ عملی کے طور پر اختیار فرمایا ہے؟"

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، "یہ محض جنگی حکمتِ عملی کے طور پر ہے-"

انہوں نے کہا، "یہ مناسب جگہ نہیں ہے- آپ آگے تشریف لے چلیں اور قریش کے سب سے قریب جو چشمہ ہو , اس پر پڑاؤ ڈالیں- پھر ہم بقیہ چشمے پاٹ دیں گے اور اپنے چشمے پر حوض بنا کر پانی بھر لیں گے- اس کے بعد ہم قریش سے جنگ کریں گے تو ہم پانی پیتے رہیں گے اور انہیں پانی نہ ملے گا-"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، ''تم نے بہت ٹھیک مشورہ دیا-" اس کے بعد آپ لشکر سمیت اُٹھے اور کوئی آدھی رات گئے دشمن کے سب سے قریب ترین چشمے پر پہنچ کر پڑاؤ ڈال دیا- پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حوض بنایا اور باقی تمام چشموں کو بند کردیا-

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم چشمے پر پڑاؤ ڈال چکے تو حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے یہ تجویز پیش کی کہ کیوں نہ مسلمان آپ کے لیے ایک مرکزِ قیادت تعمیر کردیں تاکہ خدانخواستہ فتح کے بجائے شکست سے دوچار ہونا پڑ جائے یا کسی اور ہنگامی حالت سے سابقہ پیش آجائے تو اس کے لیے آپ پہلے ہی سے مستعد رہیں- چنانچہ انہوں نے عرض کیا:

*"اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیوں نہ ہم آپ کے لیے ایک چھپر تعمیر کردیں جس میں آپ تشریف رکھیں گے اور ہم آپ کے پاس آپ کی سواریاں بھی مہیا رکھیں گے- اس کے بعد دشمن سے ٹکر لیں گے- اگر اللہ نے ہمیں عزت بخشی اور دشمن پر غلبہ فرمایا تو یہ وہ چیز ہوگی جو ہمیں پسند ہے- اور اگر دوسری صورت پیش آگئی تو آپ سوار ہوکر ہماری قوم کے ان لوگوں کے پاس جا رہیں گے جو پیچھے رہ گئے ہیں- درحقیقت آپ کے پیچھے اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ایسے لوگ رہ گئے ہیں کہ ہم آپ کی محبت میں ان سے بڑھ کر نہیں- اگر انہیں یہ اندازہ ہوتا کہ آپ جنگ سے دوچار ہوں گے تو وہ ہرگز پیچھے نہ رہتے- اللہ ان کے ذریعے آپ کی حفاظت فرمائے گا- وہ آپ کے خیر خواہ ہوں گے اور آپ کے ہمراہ جہاد کریں گے-"*

اس پر رسول اللہ نے ان کی تعریف فرمائی اور ان کے لیے دعائے خیر کی اور مسلمانوں نے میدان جنگ کے شمال مشرق میں ایک اونچے ٹیلے پر چھپر بنایا جہاں سے پورا میدانِ جنگ دکھائی پڑتا تھا- آپ کے اس مرکزِ قیادت کی نگرانی کے لیے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی کمان میں انصار نوجوانوں کا ایک دستہ منتخب کردیا گیا-
[10/04, 2:09 pm] +92 318 0567370: *سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 127*

*لشکروں کی ترتیب اور شب گزاری:*

*💥Eimaan Reminders💥*

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لشکر کی ترتیب فرمائی اور میدان جنگ میں تشریف لے گئے، وہاں آپ اپنے ہاتھ سے اشارہ فرماتے جارہے تھے کہ یہ کل فلاں کی قتل گاہ ہے، ان شاء اللہ اور یہ کل فلاں کی قتل گاہ ہے، ان شاء اللہ، مہاجرین کا عَلم حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو عنایت فرمایا، خزرج کے عَلم بردار حضرت خباب بن منذر رضی اللہ عنہ اور اوس کے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ مقرر ہوئے، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہیں ایک درخت کی جڑ کے پاس رات گزاری اور مسلمانوں نے بھی پُرسکون نفس اور تابناک اُفق کے ساتھ رات گزاری، ان کے دل اعتماد سے پُر تھے اور انہوں نے راحت وسکون سے اپنا حصہ حاصل کیا، انہیں یہ توقع تھی کہ صبح اپنی آنکھوں سے اپنے رب کی بشارتیں دیکھیں گے۔

*''جب اللہ تم پر اپنی طرف سے امن وبے خوفی کے طور پر نیند طاری کررہا تھا اور تم پر آسمان سے پانی برسارہا تھا، تاکہ تمہیں اس کے ذریعے پاک کردے اور تم سے شیطان کی گندگی دور کردے اور تمہارے دل مضبوط کر دے اور تمہارے قدم جمادے۔'' (۸: ۱۱)*

یہ رات جمعہ 18 رمضان 2 ھ کی رات تھی۔
دوسری طرف قریش نے وادی کے دہانے کے باہر اپنے کیمپ میں رات گزاری اور صبح اپنے تمام دستوں سمیت ٹیلے سے اتر کر بدر کی جانب روانہ ہوئے، ایک گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوض کی جانب بڑھا، آپ نے فرمایا: "انہیں چھوڑ دو،'' مگر ان میں سے جس نے بھی پانی پیا وہ اس جنگ میں مارا گیا، صرف حکیم بن حزام باقی بچے جو بعد میں مسلمان ہوئے اور بہت اچھے مسلمان ہوئے، ان کا دستور تھا کہ جب بہت پختہ قسم کھانی ہوتی، کہتے: ''لا والذی نجانی من یوم بدر'' قسم ہے اس ذات کی، جس نے مجھے بدر کے دن سے نجات دی-''

بہرحال جب قریش مطمئن ہوچکے تو انہوں نے مدنی لشکر کی قوت کا اندازہ لگانے کے لیے عمیر بن وہب جمحی کو روانہ کیا، عمیر نے گھوڑے پر سوار ہوکر لشکر کا چکر لگایا، پھر واپس جاکر بولا:  ''کچھ کم یا کچھ زیادہ تین سو آدمی ہیں، لیکن ذرا ٹھہرو! میں دیکھ لوں ان کی کمین گاہ یا کمک تو نہیں؟'' اس کے بعد وہ وادی میں گھوڑا دوڑاتا ہوا دور تک نکل گیا، لیکن اسے کچھ دکھائی نہ پڑا۔

اس موقعے پر ابوجہل کے خلاف جو معرکہ آرائی پر تُلا ہوا تھا، ایک اور جھگڑا اٹھ کھڑا ہوا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ جنگ کے بغیر مکہ واپس جائیں، چنانچہ حکیم بن حزام نے لوگوں کے درمیان دوڑ دھوپ شروع کردی، وہ عُتبَہ بن ربیعہ کے پاس آیا اور بولا: ''ابو الولید! آپ قریش کے بڑے آدمی اور واجب الاطاعت سردار ہیں، پھر آپ کیوں نہ ایک اچھا کام کرجائیں، جس کے سبب آپ کا ذکر ہمیشہ بھلائی سے ہوتا رہے۔''

عتبہ نے کہا: "حکیم! وہ کون سا کام ہے؟" اس نے کہا: "آپ لوگوں کو واپس لے جائیں اور اپنے حلیف عمرو بن حضرمی کا معاملہ جو سریہ نخلہ میں مارا گیا تھا، اپنے ذمے لے لیں۔" عتبہ نے کہا: "مجھے منظور ہے، تم میری طرف سے اس کی ضمانت لو، وہ میرا حلیف ہے، اس کی دیت کا بھی ذمے دار ہوں اور اس کا جو مال ضائع ہوا، اس کا بھی۔" اس کے بعد عتبہ نے حکیم بن حزام سے کہا: "تم حنظلیہ کے پوت کے پاس جاؤ، کیونکہ لوگوں کے معاملات کو بگاڑنے اور بھڑکانے کے سلسلے میں مجھے اس کے علاوہ کسی اور سے کوئی اندیشہ نہیں۔" حنظلیہ کے پوت سے مراد ابوجہل ہے، حنظلیہ اس کی ماں تھی۔

اس کے بعد عتبہ بن ربیعہ نے کھڑے ہو کر تقریر کی اور کہا: "قریش کے لوگو! تم لوگ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھیوں سے لڑ کر کوئی کارنامہ انجام نہ دوگے، اللہ کی قسم! اگر تم نے انہیں مار لیا تو صرف ایسے ہی چہرے دکھائی پڑیں گے جنہیں دیکھنا پسند نہ ہوگا، کیونکہ آدمی نے اپنے چچیرے بھائی کو یا خالہ زاد بھائی کو یا اپنے ہی کنبے قبیلے کے کسی آدمی کو قتل کیا ہوگا، اس لیے چلے چلو اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور سارے عرب سے کنارہ کش ہو رہو، اگر عرب نے انہیں مارلیا تویہ وہی چیز ہوگی جسے تم چاہتے ہو اور اگر دوسری صورت پیش آئی تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں اس حالت میں پائیں گے کہ تم نے جو سلوک ان سے کرنا چاہا تھا، اسے کیا نہ تھا۔''

ادھر حکیم بن حزام ابوجہل کے پاس پہنچا تو ابو جہل اپنی زِرَہ درست کر رہا تھا، حکیم نے کہا: "اے ابو الحکم! مجھے عتبہ نے تمہارے پاس یہ اور یہ پیغام دے کر بھیجا ہے۔" ابو جہل نے کہا: "اللہ کی قسم! محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے ساتھیوں کو دیکھ کر عتبہ کا سینہ سوج آیا ہے،  نہیں ہرگز نہیں! واللہ! ہم واپس نہ ہوں گے، یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان فیصلہ فرمادے، عتبہ نے جو کچھ کہا ہے، محض اس لیے کہا ہے کہ وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے ساتھیوں کو اونٹ خور سمجھتا ہے اور خود عتبہ کا بیٹا بھی انہیں کے درمیان ہے، اس لیے وہ تمہیں ان سے ڈراتا ہے۔" عتبہ کے صاحبزادے ابوحذیفہ قدیم الاسلام تھے اور ہجرت کرکے مدینہ تشریف لاچکے تھے۔

عتبہ کو پتا چلا کہ ابو جہل کہتا ہے "اللہ کی قسم عتبہ کا سینہ سوج آیا ہے'' تو بولا: ''اس سرین پر خوشبو لگا کر بزدلی کا مظاہرہ کرنے والے کو بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ کس کا سینہ سوج آیا ہے،  میرا یا اس کا؟"

ادھر ابوجہل نے اس خوف سے کہ کہیں یہ معارضہ طاقتور نہ ہوجائے، اس گفتگو کے بعد جھٹ عامر بن حضرمی کو جو سریہ عبداللہ بن جحش کے مقتول عمرو بن حضرمی کا بھائی تھا، بلا بھیجا اور کہا: "یہ تمہارا حلیف عتبہ چاہتا ہے کہ لوگوں کو واپس لے جائے، حالانکہ تم اپنا انتقام اپنی آنکھ سے دیکھ چکے ہو، لہٰذا اٹھو اور اپنی مظلومیت اور اپنے بھائی کے قتل کی دہائی دو۔"

اس پر عامر اُٹھا اور چیخا: "واعمراہ، واعمراہ! ہائے عمرو، ہائے عمرو۔" اس پر قوم گرم ہوگئی، ان کا معاملہ سنگین اور ان کا ارادۂ جنگ پختہ ہوگیا اور عتبہ نے جس سوجھ بوجھ کی دعوت دی تھی وہ رائیگاں گئی، اس طرح ہوش پر جوش غالب آگیا اور یہ معارضہ بھی بے نتیجہ رہا۔


*دونوں لشکر آمنے سامنے:*

صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھنے کے لئے آواز دی، بعد نماز جہاد پر وعظ فرمایا، اس کے بعد آپ ﷺ نے صف آرائی شروع کی، دست مبارک میں ایک تیر تھا، اس کے اشارہ سے صفیں قائم کرتے تھے۔

صف کی درستگی کے دوران ایک عجیب واقعہ پیش آیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیر کے ذریعے صف سیدھی فرمارہے تھے کہ سواد بن غزیہ رضی اللہ عنہ کے پیٹ پر جو صف سے کچھ آگے نکلے ہوئے تھے، تیر کا دباؤ ڈالتے ہوئے فرمایا: "سواد! برابر ہوجاؤ۔"

سواد رضی اللہ عنہ نے کہا: "اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ نے مجھے تکلیف پہنچا دی، بدلہ دیجیے!"

آپ ﷺ نے اپنا پیٹ کھول دیا اور فرمایا: "بدلہ لے لو!"

سواد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چمٹ گئے اور آپ کے پیٹ کا بوسہ لینے لگے، آپ ﷺ نے فرمایا:  "سواد! اس حرکت پر تمہیں کس بات نے آمادہ کیا؟"

انہوں نے کہا: "اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! جو کچھ درپیش ہے آپ دیکھ ہی رہے ہیں،  میں نے چاہا کہ ایسے موقعے پر آپ سے آخری معاملہ یہ ہو کہ میری جلد آپ کی جلد سے چھو جائے۔" اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لیے دعائے خیر فرمائی۔

*اب دو صفیں آمنے سامنے مقابل تھیں، حق و باطل کفر واسلام*

یہ عجیب منظر تھا، اتنی بڑی دنیا میں توحید کی قسمت صرف چند جانوں پر منحصر تھی، صحیحین میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سخت خضوع کی حالت طاری تھی،  دونوں ہاتھ پھیلا کر فرماتے تھے: "خدایا! تونے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے، آج پورا کر۔" محویت اور بے خودی کے عالم میں چادر کندھے سے گر گر پڑتی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر تک نہ ہوتی تھی، کبھی سجدہ میں گرتے تھے اور فرماتے تھے: "خدایا! اگر یہ چند نفوس آج مٹ گئے تو پھر قیامت تک تیرا نام لیوا کوئی نہ ہوگا۔"

جب صفیں درست ہو چکیں تو آپ نے لشکر کو ہدایت فرمائی کہ جب تک اسے آپ کے آخری احکام موصول نہ ہوجائیں، جنگ شروع نہ کرے، اس کے بعد طریقۂ جنگ کے بارے میں ایک خصوصی رہنمائی فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جب مشرکین جمگھٹ کرکے تمہارے قریب آجائیں تو ان پر تیر چلانا اور اپنے تیر بچانے کی کوشش کرنا، (یعنی پہلے ہی سے فضول تیراندازی کر کے تیروں کو ضائع نہ کرنا) اور جب تک وہ تم پر چھا نہ جائیں، تلوار نہ کھینچنا- (صحیح بخاری ۲/۵۶۸، سنن ابی داؤد: باب فی سل السیوف عند اللقاء ۲/۱۳)

اس کے بعد خاص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ چھپر کی طرف واپس چلے گئے اور حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اپنا نگراں دستہ لے کر چھپر کے دروازے پر تعینات ہوگئے۔

دوسری طرف مشرکین کی صورت حال یہ تھی کہ ابوجہل نے اللہ سے فیصلہ کی دعا کی، اس نے کہا:  ''اے اللہ! ہم میں سے جو فریق قرابت کو زیادہ کاٹنے والا اور غلط حرکتیں زیادہ کرنے والا ہے، اسے تو آج توڑ دے، اے اللہ! ہم میں سے جو فریق تیرے نزدیک زیادہ محبوب اور زیادہ پسندیدہ ہے، آج اس کی مدد فرما۔'' بعد میں اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی :

*''اگر تم فیصلہ چاہتے تو تمہارے پاس فیصلہ آگیا اور اگر تم باز آجاؤ تو یہی تمہارے لیے بہتر ہے،  لیکن اگر تم (اپنی اس حرکت کی طرف ) پلٹو گے تو ہم بھی (تمہاری سزا کی طرف) پلٹیں گے اور تمہاری جماعت اگرچہ وہ زیادہ ہی کیوں نہ ہو، تمہارے کچھ کام نہ آسکے گی- (اور یاد رکھوکہ ) اللہ مومنین کے ساتھ ہے۔'' (۸: ۱۹ )*

Comments

Popular posts from this blog

Stages of criminal trial

Procedure of the court and appeal in Company Law